Story Maker 1,117 #1 Posted December 25, 2016 ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے ہم بہرحال بسر خواب تمہاراکرتے ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارہ کرتے محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام آنکھ گر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے پھر کوئی آئے یہاں، کیسے گوارا کرتے کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے (عبید اللہ علیم) 2 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #2 Posted December 25, 2016 Mirza Galib Latest* *************** *Hazaroun Note The Aise Ki Har Note Pe Dam Nikle,* *Bahot Nikle Mere Ghar Se Magar Phir Bhi Kam Nikle !* *Nikalna Bank Se Notoun Ka Sunte Aaye Hain Lekin,* *Bahot Be-Abro Ho kar State Bank* *Se Hum Nikle !* *Bacha Nahi Jeib Mein Sau Ka Note Ek Bhi Ab,* *Hui Subha Aur Ghar Se ATM Khojte Hum Nikle !* *Is Daur Me Koi Toh Uss Bank Ka Pata Bata De,* *Jahan Bina Line Me Lage Paise Le Ke Hum Nikle !* *Is Muflisi Me Nahi Hai Farq Jeene Aur Marne Ka,* *Usi Ko Dekh Kar Jeete Hain Jis Dhan Pe Dam Nikle !* *Khuda Ke Waaste ATM Me Kuch Toh Daal De Zaalim,* *Kahin Aisa Na Ho Yahan Se Bhi Khaali Jeib Hum Nikle !* ★ 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #3 Posted December 25, 2016 *چنگاریاں نہ ڈال میرے دل کے گھاؤ میں* *میں خود ہی جل رہا هوں دکھوں کے الاؤ میں* *ھے کوئی اہلِ دل جو خریدے میرا مزاج* *میں زخم بیچتا ھـوں محبّت کے بھاؤ میں* ✍?.... محمد عمران 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #4 Posted December 25, 2016 مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا گرادیا ھے تو ساحل پہ انتظار نہ کر اگر وہ ڈوب گیا ھے تو دور نکلے گا اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا یقیں نہ آئےتواک بات پوچھ کر دیکھو جو ہنس رھا ھے وہ زخموں سے چور نکلے گا اس آستین سے اشکوں کو پوچھنے والے اس آستین سے خنجر ضرور نکلے گا ✍?....محمد عمران 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #5 Posted December 25, 2016 اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے خوابگاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے ہمسفر ڈھونڈو، نہ رہبر کا سہارا چاہو ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے تم ہو ایک زندہ و جاوید روایت کے چراغ تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے صبحِ صادق مجھے مطلوب ہے میں کس سے کہوں تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #6 Posted December 25, 2016 شیطان کی نسل میں وفاداری نہیں ھوتی سچ کہوں توبریلویت میں بیداری نہیں ھوتی لاکھ عشق رسول ؐ کا دعوی کرے باطل بغیراطاعت رسولؑ کےطرف داری نہیں ھوتی بڑے شوق سےکہتےہوہم عاشق رسول ؐ ہیں عاشقوں کی زبان یوں بازاری نہیں ہوتی 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #7 Posted December 25, 2016 اب گناہ و ثواب بکتے ہیں مان لیجیے جناب بکتےہیں پہلے پہلے غریب بکتےتھے اب توعزت مآب بکتے ہیں بے ضمیروں کی راج نیتی میں جاہ و منصب،خطاب بکتےہیں شیخ،واعظ،وزیر اور شاعر سب یہاں پر جناب بکتے ہیں دور تھا انقلاب آتے تھے آج کل انقلاب بکتے ہیں دل کی باتیں حبیب جھوٹی ہیں دل بھی خانہ خراب بکتے ہیں؟ ( حبیب جالب) 2 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #8 Posted December 25, 2016 ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں. ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو، اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو، ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں. مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو، بہت دیرینہ رستوں پر، کسی سے ملنے جانا ہو، بدلتے موسموں کی سیر میں، دل کو لگانا ہو، کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو، ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں. کسی کو موت سے پہلے، کسی غم سے بچانا ہو، حقیقت اور تھی کچھ، اس کو جا کے يہ بتانا ہو، ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں. ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں. شاعر: منیر نیازی. انتخاب: عاطف رانجھا. 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #9 Posted December 25, 2016 ﺑﺎﺩﺑﺎﮞ ﮐﮭُﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﺍ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﮐﻨﺎﺭﺍ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﯾﻮﮞ ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺁﺳﺎﮞ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻣﮍ ﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﮐﺲ ﺷﺒﺎﮨﺖ ﮐﻮ ﻟﯿﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﭼﺎﻧﺪ ﺍﮮ ﺷﺐِ ﮨﺠﺮﺍﮞ! ﺫﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﮐﯿﺎ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﭘﺴﭙﺎ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﻥ ﮨﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﺻﻒ ﺁﺭﺍ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺟﺐ ﺑﻨﺎﻡِ ﺩﻝ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﺮﭼﻢ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺟﯿﺘﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺯﯼ ﮨﺎﺭﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺧﺴﺎﺭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﻢ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﺖِ ﺧﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮦ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ (پروین شاکر) 1 Share this post Link to post
Story Maker 1,117 #10 Posted December 25, 2016 اندھیری رات ٹھکانے لگا کے آتے ہیں چلو کہ اپنی صبح کو جگا کے آتے ہیں سبھی جو مان رھے ہیں، بہت اندھیرا ھے چراغ جوڑ کے سورج بنا کے آتے ہیں ہجومِ شہر پہ سکتہ کہ پہل کون کرے صلیبِ شہر کو آؤ سجا کے آتے ہیں یہ رات روز جو ہم سے خراج مانگے ھے ہزار سر کا چڑھاوا، چڑھا کے آتے ہیں نہیں ھے کچھ بھی بچا اب، بجز یہ زنجیریں اُٹھو یہ مال و متاع بھی، لٹا کے آتے ہیں 1 Share this post Link to post