Taimoor Baloch 0 #1 Posted February 18, 2019 بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا ہوا سے ڈرنا بجھے چراغوں سے پیار کرنا کھلی زمینوں میں جب بھی سرسوں کے پھول مہکیں تم ایسی رت میں سدا مرا انتظار کرنا جو لوگ چاہیں تو پھر تمہیں یاد بھی نہ آئیں کبھی کبھی تم مجھے بھی ان میں شمار کرنا کسی کو الزام بے وفائی کبھی نہ دینا مری طرح اپنے آپ کو سوگوار کرنا تمام وعدے کہاں تلک یاد رکھ سکو گے جو بھول جائیں وہ عہد بھی استوار کرنا یہ کس کی آنکھوں نے بادلوں کو سکھا دیا ہے کہ سینۂ سنگ سے رواں آبشار کرنا میں زندگی سے نہ کھل سکا اس لیے بھی محسنؔ کہ بہتے پانی پہ کب تلک اعتبار کرنا 0 Share this post Link to post
Taimoor Baloch 0 #2 Posted February 19, 2019 اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا اس کا انداز تغافل تھا خداؤں جیسا کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس مآل پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا 0 Share this post Link to post